علامہ شبلی وغیرہ کا غلط موقف: نہایت افسوس کی بات کہ علامہ شبلی نعمانی نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس تعمیل ارشاد کو اجتہادی غلطی قرار دیا[1] اور یہی بات مولانا حمید الدین فراہی نے کہی ہے کہ اصل مقصد بیٹے کو کعبہ کی خدمت کے لیے نذر چڑھانے کا تھا مگر ابراہیم علیہ السلام نے اسے بیٹے کو ذبح کرنے پر محمول کر لیا۔[2] بلکہ حیرت ہے کہ علامہ سید سلیمان ندوی نے بھی پہلے استاد محترم کی رائے کے مطابق یہی سمجھا کہ مقصود اسماعیل علیہ السلام کی جسمانی قربانی نہیں روحانی قربانی تھا کہ خانہ کعبہ کی خدمت گزاری اور دین حنیف کی تبلیغ کے لیے خدا کی راہ میں قربان کر دیں۔[3] مگر کچھ عرصہ بعد سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طبع چہارم کے حواشی میں اس غلط فہمی کا یوں ازالہ فرمایا: ’’ہیچ مدان جامع کا ذوق اس مقام پر اس واقعے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اجتہادی غلطی ماننے سے اِبا کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، جو محبت الٰہی سے سرشار تھے، خطائے اجتہادی سے نہیں بلکہ غلبہ شوق اطاعت و محبت میں اس حکم الٰہی کی تعمیل اپنی طرف سے بالکل بعینہٖ وبلفظہٖ کرنے پر آمادہ ہو گئے تاکہ اس ابتلا میں وہ اللہ کے حضور پورا اُتریں اور اپنی طرف سے بیٹے کی جان کی قربانی کی جگہ اس کی خدمت توحید و تولیت کعبہ کے لیے وقف کر دینے کی تاویل کا سہارا لے کر نفس کی متابعت کے شبہہ اور دھوکے سے بھی پاک رہیں۔‘‘[4] مولانا فراہی کے رسالہ ’’الرأی الصحیح‘‘ کا ترجمہ مولانا امین احسن |