اصلاحی نے ’’ذبیح کون ہے؟‘‘ کے نام سے کیا۔ وہاں مولانا اصلاحی خاموش رہے، مگر ’’تدبر القرآن‘‘ میں اس حکم کو اُنھوں نے حقیقی ذبح کے معنی ہی میں لیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’ان کو دشت غربت میں اکلوتے اور محبوب فرزند کی گردن پر چھری چلانے کا حکم ہوا اُنھوں نے بے دریغ اس بازی کے لیے بھی آستینیں چڑھالیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے خواب میں ایک اشارے کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کو ذبح کر دینے کا حکم دیا،نہ اس کی علت و حکمت واضح فرمائی نہ اس کا اجر و انعام بیان فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام چاہتے تو اس خواب کو صرف خواب کا درجہ بھی دے سکتے تھے اور چاہتے تو اس کی کوئی تعبیر بھی نکال سکتے تھے، لیکن جس طرح اس کائنات کی ہر چیز خدا کے کلمہ ’’کن‘‘ کی تعمیل کرتی ہے، اس کو نہ تو اس کے فلسفے سے بحث ہوتی نہ اس کے اجر و ثواب سے، اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے ہر کلمے کی تعمیل کی، نہ اس کا فلسفہ پوچھا نہ اس کا اجر وثواب معلوم کیا۔ حکم ہوا آگ میں کود پڑو، کود پڑے۔ حکم ہوا وطن چھوڑدو، چھوڑ دیا۔ حکم ہوا بیٹے کی گردن پر چھری چلا دو، اس کو پچھاڑ دیا۔ یوں تو ان امتحانات میں سے ہر امتحان نہایت کٹھن تھا۔ لیکن خاص طور پر بیٹے کی قربانی والا امتحان تو ایک ایسا امتحان تھا، جس پر پورا اُترنا تو الگ رہا، اس کا تصور بھی ایک عظیم امتحان تھا۔‘‘[1] رہی بات ’’خانہ کعبہ کی خدمت گزاری کے لیے نذر چڑھانے کی‘‘ تو مولانا اصلاحی نے ہی لکھا ہے: ’’یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب بیت اللہ نہ تعمیر ہوا تھا اور نہ عبادت |