Maktaba Wahhabi

293 - 438
کے لیے کوئی متعین قبلہ ہی تھا۔‘‘[1] اس لیے خانہ کعبہ کی نذر چڑھانے کی بات ہی فضول ہے، ثبت العرش ثم انقش۔ ﴿ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴾ فرماں بردار بیٹے نے کہا کہ جو حکم دیا جا رہا ہے کر گزریں اگر اللہ نے چاہا تو ضرور آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ اس جملے سے اسماعیل علیہ السلام کے انتہائی ادب اور انتہائی عاجزی و انکساری کا اظہار ہوتا ہے۔ اولاً: ان شاء اللہ کہہ کر اپنے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا کہ نیکی کی توفیق اور معصیت سے اجتناب اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی ہو سکتا ہے۔ لا حول ولا قوۃ إلا باللہ۔ عمل ہی کیا ارادے میں بھی انسان مستقل بالذات نہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴾ [التکویر: ۲۹] ’’اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔‘‘ ﴿ سَتَجِدُنِي ﴾ کے لفظ میں اگرچہ مستقبل میں تاکید کا پہلو ہے، مگر مستقبل کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کہ کل کوئی کیا کر پائے گا۔ انسان پختہ عزم کر لیتا ہے مگر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا ﴾ [لقمان: ۳۴] ’’اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا: ﴿ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا ﴾ [الکہف: ۶۹] ’’اگر اللہ نے چاہا تو تُو مجھے ضرور صبر کرنے والا پائے گا۔‘‘
Flag Counter