بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ﴿ وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا (23) إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ﴾[الکہف: ۲۴۔ ۲۳] ’’اور کسی چیز کے بارے میں ہر گز نہ کہہ کہ میں یہ کام کل ضرور کرنے والا ہوں مگر یہ کہ اللہ چاہے۔‘‘ اس لیے مستقبل کے معاملات میں اپنے آپ پر کتنا ہی اعتماد ہو مگر اس کے باوجود ان شاء اللہ کہنا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہیں۔ یہی سبق حضرت اسماعیل علیہ السلام کے الفاظ سے حاصل ہو رہا ہے کہ میرے رب نے چاہا تو میں صبر کروں گا، اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ بلکہ یہ تو میرے رب کا احسان ہوگا کہ مجھے صابر بنا دے۔ ثانیاً: یہاں اُنھوں نے ﴿ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴾ کہا کہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے، یعنی احکام و اوامر پر صبر و استقلال سے پابندی کرنے والے اور بھی بہت ہیں اور ان شاء اللہ آپ مجھے ان میں شامل پائیں گے۔ اس سے نیکی و اطاعت پر فخر اور خود پسندی کے بجائے ان کی تواضع اور انکساری کا اظہار ہوتا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جب اللہ کی مشیت پر عمل کو موقوف کیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں صبر کی توفیق عطا فرما دی۔ |