﴿ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ (103) وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ (104) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (105) ﴾[الصّٰفّٰت: ۱۰۵۔ ۱۰۳] ’’تو جب دونوں نے حکم مان لیا اور اس نے اسے پیشانی کی ایک جانب پر گرا دیا۔ اور ہم نے اسے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقینا تُو نے خواب سچا کر دکھایا، بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔‘‘ ﴿ فَلَمَّا أَسْلَمَا ﴾ جب باپ بیٹے دونوں نے حکم تسلیم کر لیا۔ ’’أسلم‘‘ کے معنی مطیع ہونے، جھک جانے اور تسلیم کر لینے کے ہیں۔ اس میں زبان سے اقرار کے ساتھ دلی طور پر تسلیم کرکے عمل کا تقاضا پورا کرنے اور قضا و قدر کے سامنے سرِ تسلیم خم کردینے کا مفہوم پایاجاتاہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تو پہلے سے تسلیم و رضا کا عہد کر چکے تھے: ﴿ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ [البقرۃ: ۱۳۱] ’’جب اس سے اس کے رب نے کہا: فرماں بردار ہو جا، اس نے کہا: میں جہانوں کے رب کے لیے فرماں بردار ہو گیا۔‘‘ حکم ہوا کلمہ حق بلند کرو، قوم و برادری میں حتی کہ نمرود کے سامنے بھی یہ کلمہ حق کہہ دیا، حکم ہوا آگ میں کودپڑو، کود پڑے۔ حکم ہوا وطن وقوم کو چھوڑ دو، چھوڑ دیا۔ اَسّی (۸۰) سال کی عمرمیں حکم ہوا ختنہ کرو، کر دیا۔ حکم ہوا بیوی اور نونہال کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آؤ، چھوڑ آئے۔ حکم ہوا اب اس کے گلے پر چھری چلادو تو اس کے لیے بیٹے کو زمین پر لٹا دیا۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کیا خوب کہا ہے: |