’’قلبہ للرحمان، وولدہ للقربان، وبدنہ للنیران، ومالہ للضیفان‘‘ ’’ان کا دل اللہ کے لیے، بیٹا قربانی کے لیے، جسم آگ کے لیے اور ان کا مال مہمانوں کے لیے۔‘‘ تسلیم و رضا کی اس داستان میں اب بیٹا بھی ان کا ہمنوا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’أسلما‘‘ کے معنی ہیں کہ دونوں نے اللہ کی توحید کی گواہی دی، کلمۂ شہادت پڑھا، اللہ کو یاد کیا، باپ بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے اور بیٹا آغوشِ موت میں جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ امام مجاہد اور عکرمہ رحمہما اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے اور اسماعیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ اور اپنے باپ کے فرماں بردار ہو گئے۔ حضرت ابن مسعود، ابن عباس اور علی رضی اللہ عنہم اور بعض تابعین کرام اسے ’’فَلَمَّا سَلَّمَا‘‘ پڑھتے تھے، اس کے معنی ہیں کہ اُنھوں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا گویا سرِ تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔ ﴿ وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ﴾ اور اس نے اسے پیشانی کی ایک جانب پر گرا دیا۔ ’’تَلٌّ‘‘ کے معنی بلند جگہ یعنی ٹیلہ کے ہیں۔ اور ﴿ وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ﴾ کے معنی ٹیلے پرلٹا دینے کے ہیں۔ جیسے ’’ترّبہ‘‘ کے معنی کسی کو زمین پر گرانا ہے۔[1] عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ’’منٰی میں پتھر پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کے لیے لٹایا گیا تھا۔‘‘ اس اثر سے بھی ’’تل‘‘ کے اصل مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ ﴿ لِلْجَبِينِ ﴾ یہاں ’’ل‘‘ بمعنی ’’علی‘‘ جیسے قرآن مجید میں ہے: ﴿ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴾ [الإسراء: ۱۰۷] ’’وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ کرتے ہوئے گرجاتے ہیں۔‘‘ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: |