والوں میں شک مراد ہے کہ وہ دیکھنے والے کی نگاہ میں ایک لاکھ یا اس سے زائد تھے۔ ایک لاکھ سے زیادہ تعداد کتنی تھی اس بارے میں اندازے مختلف ہیں، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی تین قول نقل کیے گئے ہیں تیس ہزار، تیس ہزار سے زائد، چالیس ہزار سے زائد۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں ستر ہزار، مکحول کہتے ہیں دس ہزار۔ ان اقوال کا ماخذ معلوم نہیں ہوسکا۔ البتہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔[1] علامہ آلوسی نے تو کہہ دیا ہے: ’’إذا صح ہذا الخبر بطل ما سواہ‘‘[2] ’’ جب یہ خبر صحیح ہے تو اس کے علاوہ اقوال باطل ہیں۔‘‘ حالانکہ یہ روایت بھی قطعاً صحیح نہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے غریب کہا ہے۔ اس کے راوی زہیر ’’عن رجل‘‘ سے روایت کرتے ہیں اور ’’رجل‘‘ راوی مبہم ومجہول ہے۔ عہد نامہ قدیم میں ’’یوناہ‘‘ یعنی یونس علیہ السلام کے ذکر میں بھی ہے کہ نینوا میں ایک لاکھ بیس ہزار کی آبادی تھی۔ ﴿فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ ﴾ چنانچہ یونس علیہ السلام صحت وتندرستی کے بعد جب دوبارہ نینوا تشریف لے گئے تو انھیں دیکھ کر اہلِ نینوا ان پر ایمان لے آئے اور انھوں نے مقررہ زندگی تک اس دنیا کے مال ومتاع سے فائدہ اُٹھایا۔ سورۂ یونس میں ہے: ﴿فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ ﴾ [یونس: ۹۸] |