ہوتی۔ وہ اپنے اجتہاد کی بنا پر نینوا سے نکلے مگر اللہ تعالیٰ کو ان کا یوں بلا اجازت نکلنا پسند نہ آیا تو مچھلی کے واقعہ کے بعد پھر دوبارہ اسی بستی کی طرف جانے کا حکم فرمایا۔ ﴿مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ ﴾ اس بستی نینوا کی آبادی کا بیان ہے کہ ان کی تعداد ایک لاکھ بلکہ وہ اس سے زیادہ ہوں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور بعض دیگر حضرات نے کہا ہے کہ ’’أو‘‘ یہاں ’’بل‘‘ کے معنی میں ہے۔ بعض نے ’’أو‘‘ کو ’’و‘‘ (اور) کے معنی میں لیا ہے۔ قرآنِ مجید ہی میں ہے: ﴿فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ﴾ [البقرۃ: ۷۴] ’’وہ پتھروں جیسے ہیں یا سختی میں (ان سے بھی) بڑھ کر ہیں۔‘‘ یہاں بھی ’’أو‘‘ بل کے معنی میں ہے۔[1] اس میں شک و ریب کے معنی نہیں بلکہ یہ اسلوب بیان ہے، جس طرح عرب بعض اوقات کسور کو حذف کر دیتے اور کبھی ذکرکر دیتے تھے، تقریباً یہی اسلوب تعداد بیان کرنے میں ہوتا ہے، اس لیے اگر کسر کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو وہ ایک لاکھ تھے اور اگر کسر کو شمار کیاجائے تو ایک لاکھ سے زیادہ تھے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ کبھی تعداد کی کم سے کم تعیین بتلانے کے لیے بھی یہ اسلوب اختیار کیا جاتا ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے: اگر وہ ایک لاکھ سے زیادہ نہیں تو ایک لاکھ سے کم بھی نہیں۔ مقصود یہ ہوتا ہے کہ کم سے کم تعداد ایک لاکھ ہے۔ اس لیے ’’أو‘‘ مبالغہ کے طور پر(یا شک کے طور پر) نہیں بلکہ کم سے کم ایک لاکھ کی تعیین و تنصیص کے لیے ہے۔[2] اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’أو‘‘ شک کے معنی میں لیا جائے تو اس سے دیکھنے |