Maktaba Wahhabi

161 - 438
﴿ قَالَ تَاللَّهِ ﴾ اس کے بعد جنتی اسے طعن وملامت کرتے ہوئے کہے گا: ’’اللہ کی قسم۔‘‘ ت حرف قسم ہے جیسے ب اور و ہے۔ اور قسم کے لیے کہا جاتا ہے: تاللہ، باللہ، واللہ۔ علامہ زمخشری نے آیت ﴿وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ﴾ [الأنبیاء: ۵۷] کے تحت کہا ہے کہ حروف قسم میں حرف ’’ب‘‘ تو اصل ہے اور ’’و‘‘ اس کا بدل اور ’’و‘‘ کا بدل ’’ت‘‘ ہے۔ لیکن ’’ت‘‘ قسمیہ میں حیرت وتعجب کے معنی مضمر ہوتے ہیں، چنانچہ اخوانِ یوسف نے کہا تھا: ﴿ قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ ﴾ [یوسف: ۷۳] ’’انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! بلاشبہہ یقینا تم جان چکے ہو کہ ہم اس لیے نہیں آئے کہ اس ملک میں فساد کریں اور نہ ہم کبھی چور تھے۔‘‘ اس حقیقت کو سمجھنے کے باوجود تعجب ہے تم ہمیں چور بنا رہے ہو! یا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا: ﴿ وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ ﴾ [الأنبیاء: ۵۷] ’’اور اللہ کی قسم! میں ضرور ہی تمھارے بتوں کی خفیہ تدبیر کروں گا۔‘‘ اس میں تعجب کا پہلو یہ ہے کہ نمرود کی سرکشی کے باوجود ان بتوں کا علاج اور ان کا کام تمام کردینا آسان ہے۔ اس آیت میں بھی تعجب کی بات یہ ہے کہ تم نے تو دوست ہوتے ہوئے مجھے گمراہ کرنے اور ہلاکت میں ڈالنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی مگر اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ میں بچ گیا ورنہ بچنے کی کوئی سبیل نہ تھی۔ ﴿ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ ﴾ ’’کدت‘‘ یہ ’’کاد‘‘ سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے اور افعالِ مقاربہ میں سے ہے۔ یہ افعال کسی فعل کے قریب الوقوع ہونے
Flag Counter