دور کر دیا تو تیری نگاہ آج بہت تیز ہے۔‘‘ نظر کی اسی تیزی اور مضبوطی کی بنا پر آخرت کے تمام معاملات اس پر منکشف ہوجائیں گے۔ جنت ودوزخ کو دور سے دیکھے گا حتی کہ مومنِ صادق جنت میں ربّ ذوالجلال والاکرام کے دیدار کا شرف بھی پائے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت کے سو درجے ہیں۔ دو درجوں کے مابین اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان ہے۔‘‘[1] اور صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل جنت اوپر کے درجے کے محلات کو ایسے دیکھیں گے جیسے چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے اس میں اہل جنت کی قوتوں اور صلاحیتوں کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی بصری اور سمعی قوتیں بڑھا دی جائیں گی۔ یہ معاملہ دراصل عالمِ آخرت میں ہر ایک کے لیے ہوگا جنتی جہنمیوں کو دیکھیں گے اور جہنمی جنتیوں کو۔ اور جہنمی حسرت کے ساتھ ان سے پانی اور رزق طلب کریں گے جیسا کہ سورۃ الاعراف (آیت: ۵۰) میں بیان ہوا ہے۔ مگر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہنمی، جو آگ سے جل سڑ گئے ہوں گے، ان کو یہ جنتی کیسے پہچان پائیں گے۔ امام قتادہ اس کے بارے میں خلید العصری سے، جو حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے غلام تھے، اور مطرف رحمہ اللہ بن عبد اللہ بصری سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں یہ پہچان کروا دیں گے۔ [2] جیسے جہنم سے نکالے جانے والوں کو پہچان ہوگی۔ اسی طرح جہنمیوں کی بھی کسی علامت سے اللہ تعالیٰ آگاہ فرمادیں گے۔ ولیس ذلک علی اللہ بعزیز۔ |