Maktaba Wahhabi

57 - 438
﴿دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ ﴾ ’’دحور‘‘ ’’دحر‘‘ کا مصدر ہے۔ جس کے معنی بھگانا، دھتکارنا اور دور کرنا ہیں۔ یہ پہلی آیت میں ’’قذف‘‘ کی علت بیان ہوئی ہے کہ بھگانے کے لیے ان پر شہاب پھینکے جاتے ہیں۔ شیطان ہی کے بارے میں ہے کہ جب اسے نافرمانی اور اس کے تکبر وتمرد کی وجہ سے نکالا گیا تو اسے کہا گیا: ﴿اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَدْحُورًا ﴾ [الأعراف: ۱۸] ’’اس سے نکل جا، مذمت کیا ہوا دھتکارا ہوا۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا ﴾ [الإسرا: ۳۹] ’’اور اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود مت بنا، پس تو ملامت کیا ہوا دھتکارا ہوا جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ اور ’’واصب‘‘ یہ عذاب کی صفت ہے جس کے معنی ہیں: دوام اور ہمیشگی، یعنی ہمیشہ رہنے والا عذاب، ’’الوصب‘‘ کے معنی دائمی مرض کے بھی ہیں۔ قرآنِ پاک میں ہے: ﴿وَلَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَهُ الدِّينُ وَاصِبًا ﴾ [النحل: ۵۲] ’’اور اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اور عبادت بھی ہمیشہ اسی کی ہے۔‘‘ ﴿إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ ﴾ ’’الخطف‘‘ کے معنی کسی چیز کو جلدی سے اچک لینے کے ہیں، یعنی ملأ اعلیٰ سے وہ کوئی بات تو سن نہیں سکتے لیکن اگر کوئی شیطان اچکوں کی طرح کوئی بات اچک لے تو اس کا انتظام بھی کردیا گیا ہے کہ شہاب ثاقب اس کا تعاقب کرتا ہے۔
Flag Counter