Maktaba Wahhabi

56 - 438
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی بعثت سے پہلے استراق سمع نہیں ہوتا تھا۔ تو انھوں نے فرمایا کہ بعثت سے پہلے شیاطین سننے کی کوشش کرتے تھے ان پر شہابیے پھینکے جاتے تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر اس میں سختی کر دی گئی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ جمع وتوفیق اچھی ہے۔ سورۃ الجن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شہابیے پھینکے جاتے تھے کبھی وہ شیاطین کو لگتے کبھی نہیں لگتے تھے مگر بعثت کے بعد شہابیے مستمراً شیاطین کو لگنے لگے۔ ان کو یہاں ﴿شِهَابًا رَصَدًا﴾ کہا گیا ہے۔ کیونکہ جو کسی چیز کے لیے گھات لگائے ہوئے ہو، وہ خطا نہیں کھاتا۔ اس لیے اس آیت میں ہمیشہ لگنے کا بیان ہے آغاز کا ذکر نہیں۔[1] بعض حضرات نے تو فرمایا ہے کہ سننے کی نفی وحی سے متعلق ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ ﴾ [الشعراء: ۲۱۲] ’’بلاشبہہ وہ تو سننے ہی سے الگ کیے ہوئے ہیں۔‘‘ نزولِ وحی کے وقت آگے پیچھے پہرا ہوتا ہے جیسا کہ سورۃ الجن (آیت: ۲۷) میں ہے، یعنی نزولِ وحی کے وقت کسی موقع پر بھی شیاطین کو سننے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی کہیں آس پاس چوری چھپے سننے کی نوبت آتی ہے۔ کفارِ مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے بدگمان کرنے کے لیے جو حیلے اور حربے اختیار کیے ان میں ایک یہ تھا کہ آپ (معاذ اللہ) کاہن ہیں۔ ان کے اس الزام کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ شیاطین کو نزولِ وحی کے وقت سننے کا کوئی موقع میسر نہیں نہ ہی کوئی چوری چھپے بات اچک کر اپنے دوستوں تک پہنچا سکتا ہے جو یہ جسارت کرتا ہے اس پر شہابِ ثاقب برستے ہیں۔
Flag Counter