Maktaba Wahhabi

60 - 438
۲۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جب شیاطین کو معلوم ہے کہ جب اوپر جائیں گے تو ان پر شہاب ثاقب برسیں گے اور ان کا مقصود حاصل نہیں ہوگا تو وہ اوپر کیوں جاتے ہیں۔ اس کا جواب امام رازی رحمہ اللہ نے یہ دیا ہے کہ ممکن ہے شیاطین پر شہاب ثاقب گرائے جانے کے واقعات نادر ہوں۔ شیاطین کے درمیان وہ مشہور نہ ہوں اس لیے بعض شیاطین استراق کی جسارت کرتے ہیں۔ مگر یہ جواب محل نظر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر ان کی نامرادی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ان کے نزدیک یہ بات ایک معلوم حقیقت ہے اور ’’شہاب ثاقب‘‘ گرائے جانے کے واقعات نادر نہیں بلکہ جب بھی کوئی یہ جسارت کرتا ہے شہابیے اس پر برسائے جاتے ہیں۔ امام ابومنصور ماتریدی نے فرمایا ہے کہ شیاطین کی عادت ہے کہ وہ ہر لحظہ غفلت کی طلب میں رہتے ہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہوں اب کی بار ایسا نہیں ہوگا اس لیے وہ اوپر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تقریباً یہی بات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہی ہے کہ چوری چھپے کچھ حاصل ہونے کی امید پر وہ شہابیے لگنے کے خطرہ کے باوجود یہ جسارت کرتے ہیں بلکہ ان کی طبیعت کا شر اس خطرے سے انھیں بے پروا بنا دیتا ہے۔ حتی کہ بعثت کے بعد سختی کے باوجود ان کے سننے کی طمع ختم نہیں ہوئی۔[1] ۳۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ شیاطین وجنات آگ سے بنائے گئے ہیں تو ان پر آگ کے گولے کیا اثر کرتے ہوں گے؟ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ جنات گو آگ سے بنے ہیں مگر وہ آگ ’’شہابِ ثاقب‘‘ کے مقابلے میں ضعیف ہے اور قوی آگ کمزور کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اسے یوں سمجھئے کہ انسان مٹی سے بنایا گیا ہے مگر اینٹ یا سخت مٹی کا گولا جب اسے مارا جائے تو انسان بہرحال
Flag Counter