یا انھیں ملا کر بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے، یقینا وہ سب کچھ جاننے والا ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ اس لیے اولاد صرف اللہ تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہیے بلکہ ہر نعمت اسی سے طلب کرنے کا حکم ہے۔ اس سے صالحین کے علوِمرتبت کا بھی علم ہوتا کہ یہ بندے کی افضل ترین صفت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں اور عرض گزار ہیں: ﴿ رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴾ [الشعراء: ۸۳] ’’اے میرے رب! مجھے حکم عطا کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا۔‘‘ بیٹا طلب کیا تو یہی کہا: ﴿ رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ﴾ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی یہی عرض کیا: ﴿ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴾ [النمل: ۱۹] ’’اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی عرض کیا: ﴿ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴾ [یوسف: ۱۰۱] ’’دنیا اور آخرت میں تُو ہی میرا یار و مددگار ہے مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صلاح و صالحیت کامقام کس قدر بلند ہے۔ اللّٰہم اجعلنا منہم۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے خاندان و قبیلے کو چھوڑ کر اللہ کی راہ میں نکلے تھے تو |