کا قافلہ تھا۔ سورۃ العنکبوت میں ہے: ﴿ فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَى رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾ [العنکبوت: ۲۶] ’’تو لوط اس پر ایمان لے آیا اور اس نے کہا بے شک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں یقینا وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ یہاں فرمایا ہے: ﴿ سَيَهْدِينِ ﴾ ’’ وہ یقینا میری راہ نمائی فرمائے گا۔‘‘ ’’س ‘‘ مستقبل میں یقینی وتاکیدی امر کے لیے ہوتا ہے۔ گویاانھیں جانے میں نہ تردد تھا نہ ہی کوئی مستقبل کا خوف تھا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ تھا کہ وہ راہ نمائی فرمائے گا۔ وہ سب پر غالب ہے اور کمال حکمت والا ہے اس کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں۔ یہاں ﴿ سَيَهْدِينِ ﴾ سے مراد ہدایت دینا نہیں کہ وہ تو پہلے سے حاصل تھی بلکہ اس سے جہاں جانے کا حکم تھا وہاں کے راستہ کی راہ نمائی مراد ہے۔ گو طلبِ ہدایت سے ہدایت پر ثابت قدم رہنا یا ہدایت کے اعلیٰ مراتب کا حاصل ہونا بھی مراد ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو مستقبل میں راہ نمائی پانے کا اظہار بڑے وثوق سے فرمایا ہے مگر مصر سے مدین جاتے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا: ﴿ عَسَى رَبِّي أَنْ يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴾ [القصص: ۲۲] ’’میرا رب قریب ہے کہ مجھے سیدھے راستے پر لے جائے۔‘‘ یہاں وہ وثوق و یقین نہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کلام میں ہے۔ یہ اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس وقت نبوت سے سرفراز نہیں ہوئے تھے۔ ثانیاً: موسیٰ علیہ السلام کا نکلنا جان بچانے کے تناظر میں تھا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا ﴾ [القصص: ۲۱] ’’تو وہ ڈرتا ہوا اس سے نکل پڑا۔‘‘ |