Maktaba Wahhabi

268 - 438
﴿وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ (99) رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ (100) فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ (101) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۱۰۱۔ ۹۹] ’’اوراس نے کہا بے شک میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں، وہ مجھے ضرور راستہ دکھائے گا۔ اے میرے رب! مجھے (لڑکا) عطا کر جو نیکوں سے ہو۔ تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار لڑکے کی بشارت دی۔‘‘ آگ سے صحیح سلامت نکل آنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم سے بالکل مایوس ہو گئے کیوں کہ پوری قوم اپنی ناکامی دیکھ لینے کے باوجود ٹس سے مس نہ ہوئی، ان کی اسی ضد اور عناد کے نتیجے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ان سے نااُمید ہو ئے کہ میری سچائی کی روشن دلیل دیکھ کر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلیں تو اُنھوں نے اللہ کے حکم پر قوم کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔ ﴿ وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي ﴾ ’’اور فرمایا: بے شک میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں۔‘‘ اسلوب بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنھوں نے یہ بات علی الاعلان کہی۔ چھپ چھپا کر ملک کو خیر باد نہیں کہا۔ اور اس اعلان میں بھی اپنے رب کی طرف جانے کا فرمایا۔ یعنی ایسی جگہ جانا چاہتا ہوں، جہاں میں اپنے رب کی یوں عبادت کروں کہ کوئی بھی اس میں رکاوٹ نہ بنے۔ جس جگہ جانے کا حکم تھا وہاں جانے کو اُنھوں نے اللہ کی طرف جانا قرار دیا۔ اس جگہ سے مراد سرزمینِ شام ہے۔ یہ ابتدائی منزل تھی وہاں سے ایک حکمت وتدبیر کے تحت پہلے سرزمینِ مکہ کو آباد کرنا تھا پھر ان دونوں مقامات کو عز و شرف سے نوازنا تھا۔ پوری قوم میں ان کی زوجہ محترمہ سارہ کے علاوہ صرف ان کے بھتیجے لوط علیہ السلام ان کے ہم نَوا اور ہمراہ تھے یہ کل تین افراد
Flag Counter