Maktaba Wahhabi

272 - 438
آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔‘‘ 3 جس ملک یا شہر میں حرام کا غلبہ ہو۔ کیوں کہ طلبِ حلال مسلمان پر فرض ہے۔ 4 جہاں جان کو خطرہ ہو۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام نے اسی بنا پر وطن چھوڑا تھا۔ علامہ ابن العربی نے گو یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی نام لیا ہے۔ مگر ان کا یہ اقدام دراصل اپنے دین کے لیے تھا جان کے لیے نہیں۔ 5 طاعون کے علاوہ اگر کسی جگہ کوئی وبائی بیماری پھیل جائے تو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔ 6 جہاں مال کے نقصان کا خطرہ ہو تب بھی وہ ملک یا شہر چھوڑ دینا چاہیے کیوں کہ مسلمان کے مال کی حرمت اس کی جان کی طرح ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس نکلنے کو کنارہ کشی اور عُزلت نشینی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے کیوں کہ اُنھوں نے اپنا ملک چھوڑتے ہوئے یہ بھی فرمایا: ﴿ وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا ﴾ [مریم: ۴۸] ’’اور میں تم سے اور ان چیزوں سے جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، کنارہ کرتا ہوں اور اپنے رب کو پکارتاہوں، اُمید ہے کہ میں اپنے رب کو پکارنے میں بے نصیب نہیں ہوں گا۔‘‘ ان کے اسی قول کو علمائے کرام نے عُزلت نشینی کی دلیل ٹھہرایا ہے۔ فتنہ و فساد کے دور میں گوشہ نشیں ہو جانا یا اپنا وطن اور علاقہ چھوڑ کر جنگلوں کی راہ لینا کہ دین و ایمان محفوظ رہے، مستحب ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( یوشک أن یکون خیر مال المسلم غنم یتبع بھاشعف الجبال ومواقع القطر، یفر بدینہ من الفتن )) [1]
Flag Counter