’’عن قریب ایک وقت آئے گا کہ مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کے ساتھ وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں پر جائے گا اس کا یہ نکلنا اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے ہوگا۔‘‘ اس موضوع کی دیگر روایات علامہ نووی[1] اور علامہ منذری[2] نے بیان کر دی ہیں۔ شائقین ان کی مراجعت فرمالیں۔ بلکہ علامہ ابوسلیمان الخطابی نے اسی موضوع پر ایک مستقل کتاب ’’العزلۃ‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ مگر جمہور علمائے کرام نے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کو ہی افضل قرار دیا ہے۔ جمعہ و جماعت میں، نیکی کے مقامات، مجالس تعلیم وتعلّم، مجلس ذکر میں حاضر ہونا، بیماروں کی عیادت کرنا، جنازوں میں شریک ہونا، ضرورت مندوں کی خبر گیری کرنا، جاہلوں کی راہ نمائی کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کرنا لوگوں کی ایذا رسانی پر صبر کرنا اور لوگوں کو ایذا دینے سے اپنے آپ کو بچانا افضل اور عزیمت کا حامل ہے۔ علامہ نووی نے فرمایا ہے کہ یہی پسندیدہ طریقہ ہے اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام اور خلفائے راشدین اور ان کے بعد صحابہ اور تابعین اور ان کے بعد علمائے مسلمین اور دیگر نیک لوگ اسی پر کار بند رہے ہیں، یہی اکثر تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کا مذہب ہے۔ اسی کے امام شافعی، امام احمد اور اکثر فقہائے کرام رحمہم اللہ قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔‘‘[3] بلکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( المؤمن الذي یخالط الناس ویصبرعلی اذاہم أفضل من |