المؤمن الذی لا یخالط الناس ولا یصبر علی اذاہم )) [1] ’’وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے، اس مومن سے افضل ہے جو لوگوں سے میل ملاپ نہیں رکھتا اور ان کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرتا۔‘‘ اسلام دینِ رہبانیت نہیں کہ انسان دنیا سے بھاگ کر جنگلوں اور پہاڑوں پر جابسیرا کرے اور انسانوں سے قطع تعلق کرلے۔ فلاح کی راہ ’’تواصی بالحق‘‘ اور ’’ تواصی بالصبر‘‘ (یعنی حق اور صبر کی تلقین) ہی ہے۔ لیکن اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر قدرت نہ ہو یا اس کو ادا کرنے میں کسی بڑے فتنے میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو تو بُری محفلوں اور منکرات سے سجی مجلسوں میں بیٹھنے کی کوئی گنجایش نہیں ایسی حالت میں گھر میں بیٹھنے کا حکم ہے۔ امام بخاری نے اسی بنا پر باب قائم کیا ہے: ’’باب العزلۃ راحۃ للمؤمن من خلاط السوء‘‘ ’’بری مجلس سے گوشہ نشینی مومن کے لیے راحت کا باعث ہے۔‘‘ اصل حفاظت تو دین و ایمان کی ہے۔ اس لیے ایمان کی سلامتی اور عمل وکردار کی پاکیزگی کی صورت میں تو اجتماعی معاشرے میں رہنا افضل ہے، لیکن اگر ایمان کا خطرہ ہے عبادات اور واجبات کے چھوٹنے کا ڈر ہے تو عزلت نشینی افضل ہے اصحاب کہف نے ایمان کے لیے شہر چھوڑ کر غار میں جابسیرا کیا تھا۔ فتنوں سے بچنے کے لیے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے ربذہ اور عروہ بن زبیر رحمہما اللہ نے وادیِ عقیق میں رہایش اختیار کی۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فتنوں سے بچنے کے لیے گھر میں بیٹھ گئے تھے اور عموماً محافل میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ سید الطائفہ جنید بغدادی نے فرمایا ہے: ’’مکابد العزلۃ أیسر من مداراۃ الخلطۃ‘‘ |