﴿ وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ﴾ [البقرۃ: ۱۲۴] ’’اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ساتھ آزمایا تو اس نے انھیں پورا کر دیا۔‘‘ ان تمام آزمایشوں میں سب سے بڑی اور کھلی آزمایش اکلوتے بیٹے کی قربانی کی تھی۔ جس سے بڑی اور کوئی آزمایش نہیں باپ بیٹے کی زندگی کے لیے سب کچھ قربان کر دیتا ہے مگر یہاں بیٹے کو اپنے ہاتھ سے قربان کر دینے کا حکم تھا۔ پھر جس امتحان کو اللہ نے کھلی آزمایش کہا ہو اس کے بڑی آزمایش ہونے میں کیا شبہہ رہ جاتا ہے۔ یہ بڑی آزمایش کئی طرح سے تھی: 1 یہ بیٹا ابراہیم علیہ السلام نے اسّی (۸۰) سال کی عمر میں دعائیں مانگ مانگ کے لیا تھا۔ ایسی عمر میں اکلوتے بیٹے سے پیار کی نوعیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ 2 یہ حکم خواب میں ملا، چاہتے تو اسے محض خواب سمجھ کر نظر انداز کرسکتے تھے۔ 3 حکم بھی تب ملا جب اکلوتا بیٹا کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے قابل ہو گیا تھا اور بوڑھے باپ کا سہارا بننے لگا تھا۔ 4 حکمِ قربانی اور اس کی تعمیل وطن سے دور ہوئی۔ غربت اور مسافری میں فرزندِ ارجمند سے بڑھ کرکون مونس ہو سکتا ہے۔ مگر اس حالت میں بھی نورِ نظر کی محبت آڑے نہ آئی۔ 5 اس سے پہلے بیٹے کی ایسی قربانی کی کوئی نظیر نہیں تھی۔ یہ پہلا حکم تھا جس پر وہ پورا اُترے۔ 6 آپ تو ملکِ شام میں رہتے تھے البتہ یہاں سرزمینِ حجاز میں آتے جاتے رہتے تھے۔ یہاں اسماعیل علیہ السلام تھے اور اُن کی والدہ ہاجرہ علیہا السلام تھیں۔ ذبح کے حکم پر امِ اسماعیل کی تنہائی بھی آزمایش تھی۔ |