Maktaba Wahhabi

307 - 438
ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ﴾ [الأنعام: ۱۶۵] ’’اور وہی ہے جس نے تمھیں زمین کے جانشین بنایا اور تمھارے بعض کو بعض پر درجوں میں بلند کر دیا، تاکہ وہ ان چیزوں میں تمھاری آزمایش کرے جو اس نے تمھیں دی ہیں۔‘‘ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے انعامات پر فرمایا تھا: ﴿ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ﴾ [النمل: ۴۰] ’’یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں اور جس نے شکر کیا تو وہ اپنے ہی لیے شکر کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو یقینا میرا رب بہت بے پروا، بہت کرم والا ہے۔‘‘ اس لیے مصیبت اور نعمت دونوں آزمایش ہیں۔ مصیبت صبر کا تقاضا کرتی ہے جب کہ نعمت شکر کا۔ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ مصیبت پر کماحقہٗ صبر مشکل ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نعمت پر کما حقہٗ شکر زیادہ مشکل ہے اسی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نصبر‘‘ ’’ہمیں تکلیف سے آزمایا گیا تو ہم نے صبر کیا لیکن فراخی سے آزمایا گیا تو ہم صبر نہ کر سکے۔‘‘[1] جو اس آزمایش میں پورا اُترتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے اجر پاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی تو آزمایشوں میں گزری۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter