﴿إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ (106) وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ (107) وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ (108) سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ (109) كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (110) إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (111) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۱۱۱۔ ۱۰۶] ’’بے شک یہی تو یقینا کھلی آزمایش ہے۔ اور ہم نے اس کے فدیے میں ایک بہت بڑا ذبیحہ دیا۔ اور پیچھے آنے والوں میں اس کے لیے یہ بات چھوڑ دی۔ کہ ابراہیم پر سلام ہو۔ ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ بلاشبہہ وہ ہمارے مومن بندوں سے تھا۔‘‘ ﴿ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ﴾ کھلی آزمایش، کھلا امتحان۔ یہ امتحان دو اعتبار سے ہوتا ہے: 1 کسی شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے۔ 2 کسی کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا۔ جب ابتلا کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو صرف دوسرا معنی مراد ہوتا ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں۔ نیک بند وں کی آزمایش ان کے مقام و مرتبہ کو اُجاگر کرنے اور انھیں بڑے مراتب پر فائز کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ دنیا دار الامتحان ہے، یہاں ہر ایک امتحان میں مبتلا ہے۔ بادشاہ بھی رعایا بھی، امیر بھی غریب بھی، تندرست بھی بیمار بھی، آجر بھی اجیر بھی، باپ بھی بیٹا بھی اور شوہر بھی اور بیوی بھی۔ حتیٰ کہ تمام اوامر اور نواہی بھی آزمایش ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ﴾ [الأنبیاء: ۳۵] ’’اور ہم تمھیں برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں آزمانے کے لیے۔‘‘ |