Maktaba Wahhabi

310 - 438
جاتی ہے۔ بندہ آزمایش میں مبتلا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ زمین پر چلتا ہے کہ اس کے ذمہ کوئی گناہ نہیں رہتا۔‘‘ بندۂ مومن کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، جس صورت میں بھی اسے آزمایا جاتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو وہ تکلیف اور آزمایش کفارۂ گناہ اور رفعِ درجات کا باعث بنتی ہے۔[1] غالباً اسی بنا پر امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لیس بفقیہ من لم یعد البلاء نعمۃ والرخاء مصیبۃ‘‘[2] ’’وہ فقیہ نہیں جو آزمایش کو نعمت اور آسودگی کو مصیبت نہیں سمجھتا۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ذکر کیا ہے کہ بعض کتب سابقہ میں ہے: ’’یا ابن آدم! البلاء یجمع بیني وبینک والعافیۃ تجمع بینک وبین نفسک‘‘ ’’اے ابنِ آدم! مصیبت میں تیرا تعلق میرے ساتھ ہو جاتا ہے اور عافیت میں تیرا تعلق اپنے نفس کے ساتھ ہو جاتا ہے۔‘‘ اور یہ اس لیے کہ آزمایش میں بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اس حالت میں مناجات سے حلاوت پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر توکل و انابت دل میں پیدا ہوتی ہے۔ بعض اللہ والوں نے اسی بنا پر کہا ہے: ’’یا ابن آدم! لقد بورک لک في حاجۃ اکثرت فیھا من قرع باب سیدک‘‘ ’’اے آدم کے بیٹے! تیری محتاجی برکت کا باعث ہے کہ اس میں تجھے اپنے
Flag Counter