Maktaba Wahhabi

311 - 438
مولائے کریم کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بکثرت سعادت حاصل ہوتی ہے۔‘‘ بلکہ بعض سے تو منقول ہے کہ مشکلات میں جب میں بارگاہ الٰہی میں دعا کرتا ہوں تو اس میں مجھے ایسی حلاوت حاصل ہوتی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ میری حاجت جلد پوری نہ ہو کیوں کہ میں ڈرتا ہوں کہ میرا نفس اس خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف دوبارہ رجوع نہیں کرے گا۔[1] اس میں گویا اپنی کمزوری کا اعتراف اور مصائب میں لذتِ مناجات کا اظہار ہے مگر صحیح یہ ہے کہ حصولِ نعمت پر بھی اسی اخلاص سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لایا جائے۔ یہی سنتِ انبیائے کرام علیہم السلام ہے۔ مومنِ صادق مطلب پرست نہیں ہوتا، بلکہ ہر حال میں اپنے رب کا پرستار ہوتا ہے اور ہمیشہ صابر و شاکر رہتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ و ہ عفو و عافیت کا طلب گار بھی رہتا ہے۔ بعض حضرات عزیمت کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس حالت میں رکھے ہم راضی ہیں، مگر بعض اوقات وہ اس پر قائم نہیں رہتے۔ شیخ الاسلام نے ذکر کیا ہے کہ جناب سمنون مصری نے ایک مرتبہ کہہ دیا: ولیس لي في سواک حظ فکیف ما شئت فأمتحني ’’(اے اللہ!) میرے لیے آپ کے سوا میں کچھ نہیں، جس طرح آپ چاہیں مجھے آزما لیں۔‘‘ پھر ہوا یوں کہ وہ عُسرا لبول کے عارضہ میں مبتلا ہو گئے، تب ان کی آنکھیں کھلیں، وہ مدارس و مکاتب میں جا کر معصوم بچوں سے رفع تکلیف کے لیے دعائیں کرواتے اور کہتے کہ اپنے جھوٹے چچا کے لیے دعا کرو۔[2] اس لیے ہمیشہ عفو و عافیت کا سوال کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ صحت و عافیت کی دعا کی ہے، زوالِ نعمت و عافیت سے پناہ مانگی ہے اور ایمان کے
Flag Counter