Maktaba Wahhabi

312 - 438
بعد سب سے بڑی نعمت صحت بتلائی ہے۔ ﴿ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ﴾ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم کی تعمیل میں فرزندِ ارجمند کو ذبح کرنے کے لیے لٹا دیا۔ اسی اثنا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم نے خواب سچا کر دیا، تم نے اپنی طرف سے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ہم بیٹے کی بجائے تمھیں بطور فدیہ ’’ذبحِ عظیم‘‘ دیتے ہیں، اسے ذبح کر دیجیے۔ یہاں ’’فدیہ‘‘ کا لفظ غور طلب ہے۔ ’’الفداء، الفِدی‘‘ کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دے کر اسے مصیبت سے بچا لینا کے ہیں۔ اور فدیہ کسی حکم کے بدلے میں ہوتاہے جیسے بوڑھے لوگ، حاملہ اور مرضعہ (جو مشکل سے روزہ رکھتے ہوں) کی طرف سے ’’طعام مسکین‘‘ فدیہ ہے۔ [البقرۃ: ۱۸۴] یا جیسے حج و عمرہ میں کسی مرض یا رکاوٹ میں پھنس جائے اور اسے قبل از وقت سر منڈوانے کی ضرورت پڑ جائے تو اس کا فدیہ تین روزے یا تین صاع صدقہ یا ایک جانور کی قربانی ہے۔ [البقرۃ: ۱۹۶] اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ذبح کے حکم کا یہ فدیہ تھا۔ جس سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرزندِ ارجمند کے ذبح کا حکم تھا۔ ’’روحانی قربانی‘‘ کے لیے نہ فدیہ کی ضرورت ہے نہ اس میں ’’البلاء المبین‘‘ کا کوئی پہلو پایا جاتا ہے۔ یہ ’’ذبحِ عظیم ‘‘ مینڈھا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیچھے دیکھا تو وہاں سفید رنگ کا، سینگوں اور موٹی آنکھوں والا مینڈھا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ جنتی مینڈھا تھا جو وہاں چالیس سال سے کھا پی رہا تھا۔ منیٰ میں قربان گاہ پر لا کر اسے ذبح کیا گیا۔ ابتدائے اسلام تک اس کا سر سینگ سمیت بیت اللہ کے میزاب کے پاس لٹکتا رہا پھر سوکھ گیا۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ سے یہ بھی منقول ہے کہ یہ مینڈھا وہی تھا، جس کی قربانی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل نے پیش کی تھی۔ امام سفیان رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس مینڈھے کے سینگ بیت اللہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانے تک
Flag Counter