Maktaba Wahhabi

313 - 438
محفوظ رہے۔ حجاج بن یوسف نے جب حرم میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا اور خانہ کعبہ پر سنگ باری کی وہاں آگ لگی تو وہ سینگ بھی جل گئے۔[1] مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ ،جو بیت اللہ کے کنجی بردار تھے، کو بلا کر فرمایا: میں جب بیت اللہ میں داخل ہوا تھا تب وہاں مینڈھے کے سینگ دیکھے تھے مجھے یاد نہ رہا کہ میں تمھیں حکم دوں کہ انھیں ڈھانک دو، جاؤ انھیں ڈھانک دو بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو نمازی کو اپنی طرف متوجہ کرے۔[2] اس مینڈھے کو ’’عظیم‘‘ اس لیے کہا گیا کہ یہ جنت سے بھیجا گیا تھا اور خوب فربہ تھا۔ اس کی قدر و منزلت اس بنا پر بھی کہ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کے فدیے میں اسے قبول فرمایا تھا پھراس کی عظمت کے کیا کہنے کہ ہمیشہ کے لیے اس کی یاد کو باقی رکھا گیا۔ ہر سال منیٰ میں بالخصوص اور ایام منیٰ میں بالعموم مسلمان اسی عظیم الشان واقعے کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں۔ ﴿ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ﴾ یعنی ان کے بعد آنے والوں میں ان کی توصیف و تعریف رکھی۔ خود ان کی دعا بھی تھی: ﴿ وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ ﴾ [الشعراء: ۸۴] ’’اور پیچھے آنے والوں میں میرے لیے سچی نام وَر ی رکھ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور انھیں شہرتِ دوا م بخشی۔ ان کے بعد آنے والے سبھی انبیائے کرام علیہم السلام کو انھی کی ذرّیت میں مبعوث فرمایا۔ سب بعد والوں کو ان کی ملت کی پیروی کا حکم دیا۔ یہود ونصاریٰ اور مسلمان سبھی ان کا احترام و اِکرام کرتے ہیں۔ ﴿ سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ﴾ بعد میں آنے والوں میں ان کی تعریف کا ایک پہلو
Flag Counter