یہ ہے کہ جو بھی ان کا نام لیتا ہے، ان پر سلام بھیجتا ہے۔ وہ نام لینے والے فرشتے ہوں، مومن انسان ہوں یا جن، سبھی ان کا نام لیتے ہوئے سلام علیہ، علیہ السلام کہتے ہیں۔ توصیف و تعریف کا یہی اسلوب پہلے حضرت نوح علیہ السلام کی سرگزشت میں بھی بیان ہوا۔ اس پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ ﴿ كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴾ ’’کذلک‘‘ میں اشارہ ہے کہ اپنے نیک بندوں کے ساتھ ہمارا معاملہ اسی طرح کا ہے کہ انھیں ہم اپنی رحمتوں سے نوازتے ہیں اور ان کا ذکرِ خیر ان کے فوت ہو جانے کے بعد بھی باقی رکھتے ہیں۔ گویا یہ قبولیت عامہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ خاص نہیں بلکہ سنتِ الٰہیہ ہے کہ جب بندہ اطاعت وفرماں برداری کی راہ اختیار کرتا اور عہد وفا پورا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی محبت اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کر دیتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إذا أحب اللّٰہ عبدًا نادی جبریل: إن اللّٰہ یحب فلانا فأحبہ، فیحبہ جبریل، فینادی جبریل في أہل السماء إن اللّٰہ یحب فلانا فاحبوہ فیحبہ أہل السماء ثم یوضع لہ القبول في الأرض )) [1] ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل کو بلاتے ہیں (اور فرماتے ہیں: ) بے شک اللہ فلاں سے محبت کرتے ہیں تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ جبریل اس سے محبت کرتے ہیں پھر جبریل آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں: بے شک اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتے ہیں لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے |