ہیں۔ پھر زمین (والوں) میں اس کے لیے قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘ یہی روایت مسند امام احمد اور طبرانی میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ اور طبرانی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرما کر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا ﴾[مریم: ۹۶] ’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے عن قریب ان کے لیے رحمان محبت پیدا کر دے گا۔‘‘[1] یہ روایت اسی طرح ترمذی وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ ﴿ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ’’بے شک ابراہیم ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔‘‘ جنھوں نے اپنی عبدیت کا حق اد اکرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ایمان و یقین اور اخلاص و احسان کی یہی دولت تھی جس کی بنا پر اُنھوں نے بے مثال اطاعت گزاری کی تاریخ رقم کی۔ یہی وصف قبل ازیں سیدنا نوح علیہ السلام کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ اور آئندہ آیات میں بھی یہی وصف حضرت موسیٰ و ہارون اور حضرت الیاس علیہم السلام کے بارے میں بھی بیان ہوگا بلکہ سبھی انبیائے کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے محسن و مومن بندے تھے۔ دراصل مرتبۂ رسالت سب سے بڑا مرتبہ ہے اس کے ساتھ ان اوصاف کا انتخاب دراصل ان اوصاف کی مدح ہے، ان موصوفین علیہم السلام کی مدح مقصود نہیں۔[2] یا یہ کہ وہ منصب رسالت سے سرفراز ہونے سے پہلے ہی مومن بندوں میں سے تھے۔ |