Maktaba Wahhabi

377 - 438
کے برگزیدہ نبی تھے۔ لہٰذا ان کا مواخذہ کیوں ہوا تو یہ اس لیے کہ جیسے کہا گیا ہے: ’’حسنات الأبرار سیئات المقربین‘‘ ( ابرار کے مرتبے میں جو حسنات ہیں وہ مقربین کے درجے میں سیئات ہیں) اس لیے اس اجتہادی خطا پر بھی انھیں قیدی بنا دیا گیا۔ جیسے جناب یوسف علیہ السلام نے جیل کے ساتھی سے جب کہا کہ اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا: ﴿فَأَنْسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ ﴾ [یوسف: ۴۲] ’’تو شیطان نے اسے اس کے مالک سے ذکر کرنا بھلا دیا۔‘‘ حضرت ابنِ عباس، مجاہد اور عکرمہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ شیطان نے یوسف علیہ السلام کو اپنے رب کا ذکر بھلا دیا۔ گویا ساقی کو بادشاہ کے پاس ذکر کرنے کے لیے کہنا یوسف علیہ السلام کی عظمت کے منافی تھا۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے تھے کہ یوسف علیہ السلام کا دل میری بجائے کسی اور کی طرف التفات کرے۔ اسی وجہ سے انھیں ایک عرصہ جیل میں رہنا پڑا۔ بھائیوں کے ارادہ قتل سے بچانے والا، کنویں سے باہر نکالنے والا، عزیزۂ مصر کے ارادۂ برائی اور مصر کی عورتوں کے مکر و فریب سے بچانے والا اللہ ہی تھا۔ تو جیل سے رہائی کے لیے بھی اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے تھا۔ اسباب کی دنیا میں کسی سبب کو اختیار کرنے کی اجازت کے باوجود اللہ تعالیٰ کو مسبب الاسباب سے اغماض پسند نہ آیا تو انھیں جیل کا قیدی بنائے رکھا۔ اور یہ بھی گویا ’’ حسنات الأبرار سیئات المقربین‘‘ والا ہی معاملہ ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام قید تنہائی میں اپنے رب کو، جو رب العالمین ہے، نہ بھولے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں مچھلی کے پیٹ سے اُگلوا دیا۔ وہ لاغر اور بیمار تھے تو علاج کا بھی انتظام کر دیا: ﴿وَأَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ ﴾ ہم نے اس پر ایک بیل دار پودا اُگا
Flag Counter