Maktaba Wahhabi

378 - 438
دیا۔ یہاں ’’علیہ‘‘، ’’عندہ‘‘ کے معنی میں ہے کہ اس کے پاس ہم نے پودا اُگا دیا۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا: ﴿وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْبٌ فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ ﴾ [الشعراء: ۱۴] ’’ان کا میرے ذمے ایک گناہ ہے، پس میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔‘‘ یہاں بھی ’’عليّ‘‘ کے معنی ’’عندی‘‘ ہے۔[1] اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’علیہ ‘‘ یہاں ’’لہ‘‘ کے معنی میں ہے کہ ان کے لیے پودا اُگا دیا۔ مگر ’’علیہ ‘‘ کے معنی ہیں ان پر سایہ کے لیے پودا اُگادیا۔ ﴿شَجَرَةً ﴾ اس درخت اور نبات کو کہتے ہیں جس کاتنا ہو۔ اور جس کا تنا نہ ہو زمین پر بچھی ہوئی ہو تو اس جڑی بوٹی کو ’’نَجْمۃ‘‘ کہتے ہیں۔ جس کی جمع ’’نجم‘‘ ہے۔ جیسے قرآن پاک میں ہے: ﴿وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ ﴾ [الرحمٰن: ۶] ’’اور بے تنے کے پودے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں۔‘‘ وہ پودا ’’یقطین‘‘ کا تھا۔ امام سعید بن جبیر اور امام مبرد فرماتے ہیں کہ یقطین ہر اُس پودے کو کہتے ہیں جس کا تنا نہ ہو، اس کے پتے زمین پر بچھے ہوئے ہوں، جیسے کدو، کھیرا، ککڑی، خربوزہ، پیٹھا تُمہ وغیرہ۔ مگر یہاں اکثر مفسرین نے کدو کی بیل مراد لی ہے۔ لیکن کدو کا تو تنا نہیں ہوتا جب کہ اسے یہاں ’’شجرۃ‘‘ (تنا دار پودا) کہا گیا ہے۔ علامہ ابوحیان رحمہ اللہ نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اسے تنا دار بنا دیا تھا۔[2] مگر علامہ واحدی رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ کدو کاپودا اللہ تعالیٰ نے انھی کے
Flag Counter