Maktaba Wahhabi

379 - 438
لیے اُگایا تھا اور وہ درخت پر چڑھا ہوا تھا تاکہ اس سے سایہ حاصل ہو، ورنہ بیل سے سایہ میسر نہیں آتا۔[1] اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ کدو کے پودے کے علاوہ بھی وہاں کوئی درخت تھا اور یہ درخت بھی معجزانہ طور پر اُگایا گیا تھا۔ حالانکہ قرآن مجید میں تو یونس علیہ السلام کو چٹیل میدان میں ڈالنے کا ذکر ہے۔ لہٰذا صحیح بات وہی معلوم ہوتی ہے جو علامہ ابو حیان رحمہ اللہ نے کہی ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر آناً فاناً کدو کا پودا اُگا دیا، اسی طرح معجزانہ طور پر اسے تنا دار بنا دیا۔ وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز۔ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو سو سال تک موت دے دی پھر اسے زندہ کیا تو اس کا گدھا مرکے ہڈیاں بن گیا تھا اللہ تعالیٰ نے آناًفانًا اسے زندہ کر دیا ادھر اس کے کھانے پینے کی چیزیں صحیح سالم تھیں ان میں کوئی بگاڑ پیدا نہیں ہوا۔[2] اس لیے اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے اس کے لیے کدو کو تنادار بنادینا بھی کوئی امرِ محال نہیں۔ بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کے سائے کے لیے کدو کو پیدا کیا اور دودھ پلانے کے لیے جانور کو بھیج دیا جس سے صبح و شام وہ دودھ پیتے تھے۔[3] ’’یقطین‘‘ یعنی کدو کو الدبّاء اور القرع بھی کہا گیا ہے۔ اس کے فوائد میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ مکھیاں اس کے قریب جمع نہیں ہوتیں۔ سیدنا یونس علیہ السلام کا جسم نومولود کی طرح کمزور تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے کدو ان کے لیے پیدا کر دیا، تاکہ وہ مچھروں مکھیوں سے بچے رہیں اور آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ احادیث مبارکہ میں بھی الدبّاء اور القرع کا لفظ آیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو کا سالن بہت پسند تھا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے
Flag Counter