پختہ عہد لیا گیا کہ لوگوں کے سامنے حق صاف صاف بیان کرو اور اسے مت چھپاؤ تو: ﴿فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ ﴾ [آل عمران: ۱۸۷] ’’تو اُنھوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا۔‘‘ گویا اُنھوں نے اس عہد و پیمان کو قابلِ التفات نہ سمجھا۔ فرعون اور اس کے لشکر کے بارے میں ہے: ﴿فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ ﴾ [القصص: ۴۰] ’’تو ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑ لیا، پھر انھیں سمندر میں پھینک دیا۔‘‘ علامہ آلوسی نے فرمایا ہے کہ یہاں صرف پھینکنا اور ڈال دینا ہی مراد ہے حضرت یونس علیہ السلام اگرچہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر چلے گئے تھے لیکن دریا میں ڈالے جانے کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ قابلِ اعتنا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب انھیں مچھلی کے پیٹ میں محفوظ رکھا تو مچھلی کے پیٹ سے باہر آنے کی صورت میں وہ بے اعتنا کیسے ہوگئے؟ مچھلی نے ایسا از خود نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا اس لیے اللہ تعالیٰ نے پھینکنے کی نسبت اپنی طرف کی ہے کہ ہم نے اسے پھینکا۔ ﴿بِالْعَرَاءِ ﴾ عراء: چٹیل میدان، کھلی جگہ جہاں کوئی چیز اوٹ کے لیے نہ ہو۔ نہ وہاں گھاس ہو نہ کوئی درخت ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے دریا کے ریتلے ساحل پر یونس علیہ السلام کو صحیح سالم اُگل دیا۔ ﴿وَهُوَ سَقِيمٌ ﴾ پہلے ذکر ہو چکا ہے[1] کہ ’’سقم‘‘ خاص کر جسمانی بیماری کو کہتے ہیں برعکس ’’مرض‘‘ کے وہ جسمانی اور قلبی دونوں قسم کی بیماریوں کے متعلق استعما ل ہوتا ہے۔ چنانچہ یونس علیہ السلام کو جب مچھلی نے اُگل دیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما |