﴿فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ (145) وَأَنْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِينٍ (146) وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَى مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ (147) فَآمَنُوا فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ (148) ﴾ [الصّٰفّٰت:۱۴۸۔۱۴۵] ’’پھر ہم نے اسے چٹیل میدان میں پھینک دیا، اس حال میں کہ وہ بیمار تھا۔ اور ہم نے اس پر ایک بیل دار پودا اُگا دیا۔ اور اسے ایک لاکھ کی طرف بھیجا، بلکہ وہ زیادہ ہوں گے۔ پس وہ ایمان لے آئے تو ہم نے انھیں ایک وقت تک فائدہ دیا۔‘‘ سیدنا یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تسبیح بیان کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اس پریشانی سے نجات دی۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ یونس علیہ السلام کو اُگل دو تو مچھلی نے انھیں چٹیل میدان میں پھینک دیا۔ ’’نبذ‘‘ کے معنی ہیں پھینکنا، ڈال دینا۔ بلکہ امام راغب نے کہا ہے کہ ’’نبذ‘‘ کے اصل معنی کسی چیز کو درخور۔ اعتنا نہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں اور قرآن پاک میں اکثر اسی معنی میں اس کا استعمال ہواہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں یہودیوں کے بارے میں ہے: ﴿أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ ﴾ [البقرۃ: ۱۰۰] ’’اور کیا جب کبھی اُنھوں نے کوئی عہد کیا تو اسے ان میں سے ایک گروہ نے پھینک دیا۔‘‘ جیسے بے قدر چیز کو پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کی آیت میں کتاب اللہ کو پھینک دینے کا ذکر ہے۔ اہلِ کتاب ہی کے بارے میں فرمایا ہے کہ جب ان سے |