Maktaba Wahhabi

373 - 438
جمہور علما قرعہ اندازی کے قائل ہیں۔ بعض علمائے احناف نے اسے قمار سے تعبیر کیا ہے۔ حالانکہ امام ابن المنذر نے امام ابو حنیفہ سے نقل کیا ہے کہ قرعہ اگرچہ خلاف قیاس ہے: ’’لکنا ترکنا القیاس فی ذلک واخذنا بالآثار والسنۃ‘‘[1] ’’مگر ہم نے قیاس کو چھوڑ کر آثار اور سنت کو لیا ہے۔‘‘ قرعہ اندازی اہلِ علم میں اجماعی نوعیت کی ہے۔ جب دو یا اس سے زائد افراد کا کسی چیز میں حق برابر ہو تو نزاع کو ختم کرنے کے لیے قرعہ اندازی درست ہے۔ خلافت کے انعقاد کے لیے خلیفہ کی جو شروط ہیں، وہ شروط اگر متعدد افراد میں پائی جاتی ہوں تو قرعہ کے ذریعے اس کا فیصلہ ہوگا۔ اسی طرح نماز کا امام منتخب کرنے، یا موذّن کا انتخاب کرنے، میت کو غسل دینے، سفر میں کسی بیوی یا بیٹے کو ساتھ لے جانے، بچے کو دودھ پلانے اور نماز کے لیے صف اول میں جگہ پانے جیسے معاملات میں قرعہ سے فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن قیم نے ’’الطرق الحکمیہ‘‘: (ص: ۲۶۵۔ ۳۰۱) میں قرعہ اور اس سے متعلقہ مسائل پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔ قرعہ کے ذریعے کسی کو مجرم قرار دے کر سزا دینا درست نہیں یا یونس علیہ السلام کے قصہ کے تناظر میں ڈگمگاتی کشتی میں قرعہ ڈال کر کسی مسافر کو دریا کی نظر کر دینا بھی درست نہیں۔ یونس علیہ السلام نے خود اعتراف کیا تھا کہ میں ہی اپنے مالک سے بھاگا ہوا ہوں۔ مگر اہلِ کشتی انھیں جانتے پہچانتے تھے اُنھوں نے ان کی بات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا، تب اُنھوں نے اس فیصلے کے لیے قرعہ ڈالا تو وہ یونس علیہ السلام ہی کے نام نکلا۔ پوری کشتی کو بچانے کے لیے کسی کو بھی دریا میں ڈالا جاسکتا تھا یوں قرعہ کے ذریعے انھیں مجرم نہیں بنایا گیا۔
Flag Counter