میں متصل بیان کیا ہے کہ ایک قوم کے ذمہ قسم لازم ہوئی تو سب نے قسم کھانے میں جلدی کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: ’’قسم کھانے کے بارے میں قرعہ ڈال لو کہ کون قسم کھائے؟‘‘[1] انہی احادیث میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے: (( لو یعلم الناس ما في النداء والصف الأول ثم لم یجدوا إلا أن یستھموا علیہ لاستھموا )) [2] ’’اذان اور صف اول میں جو ثواب ہے اگر لوگ اس کو جانتے ہوتے تو پھر قرعہ کے بغیر اسے حاصل نہ کر سکتے تو ضرور اس پر قرعہ ڈالتے۔‘‘ امام بخاری اور دیگر مورخین نے ذکر کیا ہے کہ جنگ قادسیہ میں اذان کہنے کے بارے میں اختلاف ہوا تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ان کے مابین قرعہ اندازی کی جس کے نام قرعہ نکلا اس نے اذان دی۔[3] حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں جانا چاہتے تو اپنی بیوں کے نام پر قرعہ ڈالتے جس کے نام کا قرعہ نکلتا، اس کو سفر میں ہمراہ لے جاتے۔[4] ام العلاء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مہاجرین کے رہنے سہنے کے لیے قرعہ ڈالا گیا تو عثمان بن مظعون کا قرعہ ہمارے نام نکلا اور وہ ہمارے ہاں رہے۔[5] امام بخاری نے قرعہ اندازی سے فیصلے کو کتاب الشہادات میں ذکر کرکے اشارہ کیا ہے کہ یہ قرعہ اندازی گواہی کے قائم مقام ہے۔ جیسے گواہی سے فیصلہ کیا جاتا ہے اسی طرح قرعہ کے ذریعہ بھی فیصلہ ہوتا ہے۔ |