Maktaba Wahhabi

93 - 438
﴿وَقَالُوا يَا وَيْلَنَا هَذَا يَوْمُ الدِّينِ (20) هَذَا يَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (21) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۲۱۔ ۲۰] ’’اور کہیں گے ہائے ہماری بربادی! یہ تو جزا کا دن ہے۔ یہی فیصلے کا دن ہے، جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘ جب وہ قبروں سے نکل کر سراسیمگی میں دیکھ رہے ہوں گے تب وہ کہیں گے: ہائے ہماری بربادی۔ ویل عموماً کسی مصیبت کے موقع پر بولا جاتا ہے۔ اور اس کے معنی ہلاکت، بربادی، تباہی اور رسوائی ہیں۔ اور یہ کلمۂ حسرت وندامت ہے۔ علامہ راغب نے کہا ہے: حسرت کے موقع پر ’’ویل‘‘ اور تحقیر کے لیے ’’ویس‘‘ اور ترحم کے لیے ’’ویح‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اور جنھوں نے کہا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے تو ان کا یہ مقصد نہیں کہ یہ اس کے وضعی معنی ہیں، بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ جن لوگوں کے متعلق قرآن نے یہ کلمہ استعمال کیا ہے ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔[1] جنھوں نے ’’ویل‘‘ جہنم کی وادی کا نام بتلایا ہے ان کا استدلال حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ویل واد فی جہنم یہوی فیہ الکافر اربعین خریفا قبل ان یبلغ قعرہ )) [2] ’’ویل جہنم میں وادی ہے جس میں کافر کو گرایا جائے گا اس کو تہ تک پہنچنے میں چالیس سال لگیں گے۔‘‘
Flag Counter