إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ ﴾ [النمل: ۸۷] ’’اور جس دن صور میں پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانوں میں ہے اور جوزمین میں ہے، گھبرا جائے گا مگر جسے اللہ نے چاہا اور وہ سب اس کے پاس ذلیل ہو کر آئیں گے۔‘‘ یہاں بھی وہی کفار مراد ہیں کیونکہ اس سے پہلے مکذبین ہی کا بیان ہے۔ انھی بدنصیبوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے: ﴿يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ (42) خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ ﴾ [القلم: ۴۲، ۴۳] ’’جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور وہ سجدے کی طرف بلائے جائیں گے تو وہ طاقت نہیں رکھیں گے۔ ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی، ذلت انھیں گھیرے ہوئے ہوگی، حالانکہ انھیں سجدے کی طرف بلایا جاتا تھا، جب کہ وہ صحیح سالم تھے۔‘‘ یہ ذلت قبروں سے اٹھتے ہی ان کا مقدر ہوگی۔ میدانِ محشر میں بھی ذلیل ہوں گے اور جہنم میں بھی ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔ أعاذنا اللہ من ذلک۔ ﴿فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ ﴾ اس میں اور بعد کی آیات میں احوالِ قیامت کی بعض تفاصیل بیان ہوئی ہیں کہ اس کو تم کوئی مشکل نہ سمجھو یہ ہماری ایک ڈانٹ سے اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔ ’’زجر‘‘ آواز کے ساتھ دھتکارنے، ڈانٹنے اور جھڑکنے کو کہتے ہیں۔ کبھی یہ صرف دھتکارنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی آواز کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ |