Maktaba Wahhabi

88 - 438
ہاں، تم لوگ اٹھائے جاؤ گے اس وقت نہایت ذلیل ہو گے۔ سوال کے جواب میں کوئی دلیل بیان نہیں ہوئی کیونکہ قیام قیامت پر پہلے یقینی عقلی دلیل ﴿فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا ﴾ [الصّٰفّٰت: ۱۱] میں بیان ہوچکی ہے۔ اب اس کے وقوع کے لیے مخبر صادق، جس کی صداقت بذریعہ معجزات واضح ہوچکی ہے، کا ’’نعم‘‘ کہہ دینا ہی کافی ہے اور یہ اس کی دلیل قاطع ہے۔ ﴿دَاخِرُونَ ﴾ کے معنی ذلیل ہونے اور حقیر ہونے کے ہیں۔ اسی معنی میں ایک اور جگہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ﴾ [المؤمن: ۶۰] ’’اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عن قریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘ یہ اندازِ جواب دراصل حقیقت حال کا بیان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ابی بن خلف کے جواب میں، جب اس نے بوسیدہ ہڈی کو ہوا میں بکھیرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے بھی اٹھایا جائے گا، فرمایا تھا: (( نعم ثم یحییک ثم یدخلک جہنم۔ )) [1] ’’ہاں تمھیں زندہ کیا جائے گا پھر تمھیں جہنم میں داخل کیا جائے گا۔‘‘ سورۃ النمل میں بھی اسی حقیقت کا یوں بیان ہوا ہے: ﴿وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ
Flag Counter