یہی عاص بن وائل اور بعض آثار میں ہے: ابی بن خلف، قبرستان سے کسی مردہ کی بوسیدہ ہڈی لیے ہوئے آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے توڑ کر اور اس کے اجزا ہوا میں اڑا کر کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تم کہتے ہو مردے پھر زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے۔ بتلاؤ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ جس پر سورت یٰس کی آیات (۷۸، ۷۷) نازل ہوئیں۔[1] جاہلی عربی شاعر کہتا ہے: أموت ثم بعث ثم حشر حدیث خرافۃ یا أم عمر ’’کیا موت کے بعد پھر اُٹھنا ہے، پھر جمع ہونا ہے، اے ام عمر! یہ فضول بات ہے۔‘‘ ابوبکر شداد بن اسود اللیثی المعروف ابن شعوب نے مسلمان ہونے سے پہلے بدر میں قتل ہونے والوں کا مرثیہ کہا جس میں اس نے قیامت کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: یحدثنا الرسول بأن سنحیا وکیف حیاۃ أصداء وہام[2] ’’ہمیں رسول بتلاتا ہے کہ عنقریب ہم زندہ ہوں گے۔ ہڈیاں اور کھوپڑیاں گل سڑ جاتی ہیں تو ان میں (نئی) زندگی کیسے؟‘‘ انھیں اپنے اس موقف پر اس قدر یقین تھا کہ اس پر قسمیں کھاتے تھے: ﴿وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَا يَبْعَثُ اللَّهُ مَنْ يَمُوتُ بَلَى وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴾ [النحل: ۳۸] ’’اور انھوں نے اپنی پکی قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی کہ اللہ |