Maktaba Wahhabi

85 - 438
﴿أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ (16) أَوَآبَاؤُنَا الْأَوَّلُونَ (17) قُلْ نَعَمْ وَأَنْتُمْ دَاخِرُونَ (18) فَإِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَاحِدَةٌ فَإِذَا هُمْ يَنْظُرُونَ (19) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۱۹۔ ۱۶] ’’کیا جب ہم مر گئے اور مٹی اور ہڈیاں ہو چکے تو کیا واقعی ہم ضرور اٹھائے جانے والے ہیں؟اور کیا ہمارے پہلے باپ دادا بھی؟ کہہ دے: ہاں! اور تم ذلیل ہوگے۔ سو وہ بس ایک ہی ڈانٹ ہوگی تو یکایک وہ دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘ یہ ان کے مذاق کی تعبیر ہے جس کی وجہ سے وہ قیام قیامت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ وہ کہتے تھے جب ہم مرجائیں گے۔ گل سڑ کر مٹی ہوجائیں گے ہمارے اجزاء بکھر جائیں گے تو عقل یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ مزید تعجب یہ کہ کیا ہمارے آباء واَجداد بھی اٹھائے جائیں گے؟ اسی اشکال کی وجہ سے وہ سمجھتے تھے کہ جو قیامت سے ڈراتے ہیں وہ دیوانے ہیں۔ ایسا بھی کبھی ہوسکتا ہے؟ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے باپ عاص بن وائل نے حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کی مزدوری ادا کرنی تھی۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے اس کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا: جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کرو گے رقم نہیں دوں گا۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم مر کر دوبارہ زندہ ہوجاؤ، تب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نہیں چھوڑوں گا۔ عاص نے کہا: کیا مر کر زندہ ہونا ہے؟ حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بے شک، عاص نے کہا: اچھا وہیں میرا مال ہوگا وہاں رقم دے دوں گا۔[1]
Flag Counter