Maktaba Wahhabi

83 - 438
پر دلیل قاطع کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے انکار پر تعجب کا اظہار فرماتے مگر کفار اس کا مذاق اڑاتے اور دوبارہ زندہ ہونے کو محال سمجھتے تھے کہ جو مر کر مٹی ہوجائے گا اس کے اجزاء بکھر جائیں گے انھیں دوبارہ کیسے اُٹھایا جائے گا؟ اس لیے وہ اس موقف اور اس موقف کے داعی کا مذاق اڑاتے تھے۔ انھیں جب دلیل سے سمجھایا جاتا کہ جو ہستی آسمان وزمین بنانے پر قادر ہے، اس کے لیے مُشتِ خاک سے دوبارہ انسان بنانا مشکل نہیں۔ مگر وہ اپنی جہالت وعناد کی وجہ سے اس تذکیر سے کوئی سبق نہیں لیتے تھے۔ اس دلیل کے علاوہ انھیں سمجھانے کا دوسرا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر معجزے کے ذریعے ایمان ویقین لانے کا ہے کہ جب معجزات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا ہونا ثابت ہوا تو وہی رسول تمھیں خبردار کرتا ہے کہ قیامت قائم ہوگی۔ مگر منکرین اس دلیل کو بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کا بڑی شدت سے مذاق اڑاتے ہیں۔[1] یہ مذاق معجزات دیکھنے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا کہ یہ تو ہماری طرح کھاتے پیتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں۔ رسالت کا یہ تاج مکہ یا طائف کے کسی بڑے کے سر کیوں نہیں سجایا گیا؟ کبھی کہتے: عجیب بات ہے کہ خود انھی میں سے ڈرانے دھمکانے والا آیا ہے۔ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا؟ ﴿وَقَالُوا إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ ﴾ معجزہ دیکھ کر کہتے: یہ صاف جادو کے سوا کچھ نہیں۔ زچ کرنے کے لیے معجزے کا مطالبہ تو کرتے ہیں، مگر جب معجزہ دکھایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ کھلا جادو ہے۔ چناں چہ کفار کے مطالبے پر جب چاند دو ٹکڑے کرکے دکھا دیا گیا تو انھوں نے اسے بھی جادو قرار دیا: ﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (1) وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا
Flag Counter