Maktaba Wahhabi

82 - 438
سے پانی کے چشمے پھوٹنا، تھوڑی سی چیز میں برکت ہونا، پتھروں کا کلمہ پڑھنا اور چاند کا دو ٹکڑے ہونا وغیرہ۔ اور وہ نشانیاں باطنی بھی ہیں، جیسے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ہمہ گیر اور عالمگیر ہونا، آپ کا کلام جوامع الکلم ہونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اَخلاق و کردار اعلیٰ و عظیم ہونا اور تزکیہ نفوس اور تاثیر فی القلوب کرنا وغیرہ۔ قرآن اس بارے میں ایک کھلی نشانی ہے جس کی نظیر لانے سے آج تک سبھی قاصر ہیں اور رہیں گے۔ اہلِ علم اور اہلِ کتاب آپ کی انھی باطنی نشانیوں کی تلاش کرتے تھے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سن کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ قیصرِ روم ہرقل نے ابوسفیان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردار اور تعلیمات کے بارے میں جان کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا اعتراف کیا۔ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی زبان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا یقین کیا۔ اس قسم کے متعدد واقعات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور روحانی تربیت کا باطنی نشانی ہونا واضح ہوتا ہے۔ کفارِ مکہ جو اُمّی تھے، وہ ظاہری نشانی کے طلب گار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ایسے مطالبات کا ذکر سورت بنی اسرائیل میں اور دیگر سورتوں میں کیا ہے۔ ان کے مطالبے پر ہی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے ہوئے۔ انھوں نے دیکھا مگر اس کے باوجود اُن کے مسخرہ پن میں اضافہ ہی ہوا۔ یہاں بھی یہی ظاہری نشانی مراد ہے۔ جیسا کہ ﴿رَأَوْا ﴾ (وہ دیکھتے ہیں) کے لفظ سے عیاں ہوتا ہے۔ یہاں قرآن کا اعجاز مراد نہیں کیونکہ قرآن سنا اور پڑھا جاتا ہے۔ پڑھ سن کر ہی اس کی عظمت کا علم ہوتا ہے، محض دیکھنے سے نہیں ہوتا۔ ﴿يَسْتَسْخِرُونَ ﴾ یہ باب استفعال سے ہے جس میں مبالغہ کا معنی پایا جاتا ہے کہ وہ خوب مذاق اڑاتے ہیں۔ یا طلبِ مادہ کے لیے بھی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو مذاق اڑانے کے لیے کہتے ہیں۔ امام رازی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ پہلے قیامِ قیامت
Flag Counter