﴿لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ ﴾[حٰمٓ السجدۃ: ۲۶] ’’اس قرآن کو مت سنو اور اس میں شور کرو تاکہ تم غالب رہو۔‘‘ نصیحت قبول کرنے کی بجائے ان کے عناد کا کیا عالم تھا؟ اس آیت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ثانیاً: قرآن پاک کے سراپا نصیحت و موعظت ہونے کے علاوہ، ’’ایام اللہ‘‘ (اللہ کے دن) بھی باعث نصیحت ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: ﴿وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ ﴾ [إبراہیم: ۵] ’’اور انھیں اللہ کے دن یاد دلا۔‘‘ اللہ کے دنوں کی یاد سے مراد بھی ان سے نصیحت حاصل کرنا ہے۔ ’’ایام اللہ‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کے انعامات کے دن اور تاریخ کے سبق آموز واقعات ہیں جن سے عبرت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات واحسانات کو یاد دلانا تاکہ منعم ومحسن کے احسان کو یاد کرکے اس کی فرمانبرداری اور شکر گزاری بجا لائی جائے۔ اور تاریخ کے ایسے واقعات یاد دلانا جن میں پہلی امتوں پر عذاب کا ذکر ہے کہ محسن کی ناشکری اور نافرمانی کے نتیجے میں بڑی بڑی قومیں نیست ونابود کردی گئیں اور آنے والوں کے لیے انھیں نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ ﴿وَإِذَا رَأَوْا آيَةً ﴾ ’’اٰیۃ‘‘ کے معنی ہیں نشانی اور واضح علامت۔ اور یہاں مراد معجزہ ہے جو نبی کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود اور وحدہ لا شریک ہونے پر قرآنِ مجید میں بہت سی ’’آیات‘‘ (نشانیوں) کا ذکر فرمایا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سی نشانیاں عطا فرمائی ہیں۔ وہ نشانیاں ظاہری بھی ہیں، جیسے: بیمار کا اچھا ہوجانا، انگلیوں |