یہاں برائی کی جزا و سزا کو بھی ’’سیئۃ‘‘ کہا گیا ہے۔ اسی طرح ﴿وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ ﴾ [البقرۃ: ۴۰] ﴿فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ ﴾ [البقرۃ: ۱۵۲]، ﴿إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ ﴾ [محمد: ۷]، کفار تعجب کا اظہار کرتے اور مذاق اڑاتے تھے تو ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعجب اور مذاق کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے مذاق اور تعجب کی انھیں سزا دے گا۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہ تاویل بھی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعجب کبھی رضا کے معنی میں آتا ہے اور کبھی اس معنی میں بھی کہ اس عمل کا وقوع اللہ کے ہاں بہت بڑا اور بُرا ہے۔ یہی آخری مفہوم امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ یہ تاویل اپنی جگہ بجا سہی مگر صفات باری تعالیٰ میں صحیح موقف یہی ہے کہ انھیں تاویل وتعطیل اور تشبیہ وتمثیل کے بغیر تسلیم کیا جائے۔ جیسے سمع، بصر، کلام، ضحک، محبت، رضا، غضب وغیرہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اسی طرح ’’عجب‘‘ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے۔ اور احادیث میں ’’عجب اللہ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا تعجب انسان کی طرح کسی معاملے سے بے خبری یا اسباب کے میسر نہ ہونے پر تعجب جیسا نہیں، بلکہ کسی کام کے اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کی بنا پر ہے یا اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی وجہ سے ہے۔ واللہ أعلم۔ |