نیز فرمایا: ﴿وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ ﴾ [صٓ: ۴] ’’اور انھوں نے اس پر تعجب کیا کہ ان کے پاس انھی میں سے ایک ڈرانے والا آیا۔‘‘ تو ان کے اس تعجب پر یہاں اللہ کا تعجب اللہ کی طرف سے بدلہ اور سزا مُراد ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ بھی قرآنِ مجید میں ہے: ﴿فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ [التوبۃ: ۷۹] ’’سو وہ ان سے مذاق کرتے ہیں، اللہ نے ان سے مذاق کیا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہے: ﴿اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ ﴾ [البقرۃ: ۱۵] ’’اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا مذاق انسانوں کے مذاق کی طرح نہیں۔ بلکہ کفارِ مکہ نے رؤسائے قریش سے کہا تھا: ﴿إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ﴾ [البقرۃ: ۱۴] ’’بے شک ہم تمھارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف (مسلمانوں کا) مذاق اڑانے والے ہیں۔‘‘ یہاں بھی کفار کے مذاق کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے مذاق سے مُراد ان کے مذاق کی جزا وسزا ہے۔ جب ایک ہی طرح کے دو الفاظ یکے بعد دیگرے استعمال ہوں تو دوسرا پہلے کی جزا ہوتا ہے۔ جسے ’’الجزاء من جنس العمل‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی قرآنِ مجید میں متعدد مثالیں ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ﴾ [الشوریٰ: ۴۰] ’’اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے۔‘‘ |