Maktaba Wahhabi

75 - 438
سمجھتے تھے کہ اس معجز کتاب کو سن کر لوگ ایمان لے آئیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعجب ہوا کہ مشرکین اس پر ایمان نہیں لاتے بلکہ الٹا مذاق کرتے ہیں۔ آپ کے تعجب کا باعث یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ تو مجھے صادق وامین مانتے ہیں اور اپنے مطالبے پر معجزات بھی دیکھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود میری تکذیب کرتے ہیں اور میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ ﴿بَلْ عَجِبْتَ ﴾ کے بارے میں ایک قراء ت ’’ت‘‘ کی پیش کے ساتھ ’’بل عجبتُ‘‘ ہے۔ یہی قراء ت حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ عاصم کے علاوہ باقی قرائِ کوفہ کی بھی یہی قراء ت ہے۔ بلکہ قاضی شریح نے جب اس قراء ت کا انکار کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز پر تعجب نہیں کرتے تو امام اعمش رحمہ اللہ نے اس کا ذکر امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے کیا، انھوں نے فرمایا: ’’عبداللہ بن مسعود اُن سے زیادہ جانتے ہیں۔ انھوں نے ’’عجبتُ‘‘ پڑھا ہے۔‘‘ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ دونوں قراء تیں (ت پر زبر اور پیش) مشہور اور صحیح ہیں۔ ’’عجبٌ‘‘ اور ’’التعجب‘‘ اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے۔ اسی بنا پر بعض نے کہا ہے کہ اس کا اطلاق اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر نہیں ہو سکتا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ تو علام الغیوب ہے۔ کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں۔ مگر یہ درست نہیں، کیونکہ تعجب وعجب کا اللہ تعالیٰ کی طرف انتساب قرآنِ پاک میں اور صحیح احادیث میں بھی ہے۔ ﴿بَلْ عَجِبْتَ ﴾ میں ’’ت‘‘ کے ضمہ کے ساتھ اس کی قراء ت کے علاوہ آیت ﴿وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ﴾ [الرعد: ۵] ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ان کے قول پر آپ کو تعجب ہے تو مجھے بھی اس پر تعجب ہے۔‘‘ سے بھی استدلال کیا گیا ہے۔
Flag Counter