وہ جب چاہے گا اس سے انسان کو دوبارہ بنا لے گا۔ جب پہلی بار اس مٹی سے انسان کا بنانا کچھ مشکل نہیں ہوا تو آئندہ یہ مشکل کیسے ہوجائے گا؟ کسی چیز کو پیدا کرنا مشکل تب ہوسکتا ہے جب مادہ میں استعداد نہ ہو یا پیدا کرنے والے میں قدرت نہ ہو۔ لیس دار مٹی میں جب یہ صلاحیت ختم نہیں ہوئی اور اللہ تعالیٰ بھی ہر چیز پیدا کرنے پر قادر ہیں۔ جب مر کر انسان مٹی ہوجائے گا تو اسی مٹی سے اسے دوبارہ پیدا کرنا مشکل کیسے ہوگا؟ ﴿خَلَقْنَاهُمْ ﴾ سے یہاں مراد حذف مضاف کے اُصول پر ’’خلقنا أصلہم‘‘ ہے اور وہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد ہر انسان ہو۔ اس لیے کہ ہر انسان نطفہ سے بنتا ہے۔ اور نطفہ خون سے بنتا ہے اور خون غذا سے بنتا ہے اور غذا، خواہ حیوانی ہو یا نباتاتی ۔غذائے حیوانی کی اصل بھی نباتات ہی ہیں۔ اس کی اصل نباتات ہیں اور نباتات مٹی اور پانی یعنی ’’طین لازب‘‘ سے پیدا ہوتے ہیں۔ جب یہ حقیقت ہے تو ہر انسان بھی گویا ’’طین لازب‘‘ سے پرورش پا رہا ہے۔ یوں یہ مٹی حیات کا سبب ہے اور مسبب الاسباب اور خالق کل بہرنوع قادر مطلق ہے۔ نہ مٹی کی یہ قوتِ حیات ختم ہوئی نہ خالق کی صفت میں کوئی کمی آئی ہے۔ اس لیے اس مٹی سے اللہ تعالیٰ جب چاہے گا انسان کو دوبارہ بنا لے گا۔ ﴿أَمْ مَنْ خَلَقْنَا ﴾ میں ’’من‘‘ ذوی العقول کے لیے ہے۔ اسی لیے اس سے مراد فرشتے بھی لیے گئے ہیں۔ یہی قول امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا ہے۔ بلکہ جنات بھی ذوی العقول ہیں اور پہلی آیات میں ان دونوں کا ذکر ہے۔ اس لیے یہاں یہ بھی مفہوم ہوگا کہ ان سے پوچھو کہ ان کو پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا دوسری مخلوقات ملائکہ وجنات کو پیدا کرنا مشکل ہے۔ انھیں تو ہم نے چپکنے والی مٹی سے بنایا ہے۔ جب کہ ملائکہ کو نور سے اور جنات کو نار سے بنایا ہے۔ جب ہم ان بڑی طاقت ور مخلوقات کو پیدا کرنے پر قادر ہیں تو انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر کیوں قادر نہیں؟ |