﴿ أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ﴾ [یٰسٓ: ۸۱] ’’اور کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں کہ ان جیسے اور پیدا کردے؟ کیوں نہیں اور وہی سب کچھ پیدا کرنے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ ﴿ إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِنْ طِينٍ لَازِبٍ ﴾ ’’طین‘‘ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہو جائے۔[1] گویا اس سے مراد گیلی مٹی یا گارا ہے۔ فرعون نے کہا تھا: ﴿ فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ ﴾ [القصص: ۳۸] ’’تو اے ہامان! میرے لیے مٹی (گارے) پر آگ جلا اور اس سے اینٹیں تیار کرو۔‘‘ ’’لازب‘‘ بمعنی لازق ہے۔ ’’لازب‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں، جو کسی مقام پر شدت سے چپک چمٹ جائے۔[2] اور بعض نے ’’لازب‘‘ بمعنی ’’لاصق‘‘ لیا ہے اور اس کے معنی بھی چپکنا ہیں۔ مگر ’’لازق‘‘ اور ’’لاصق‘‘ میں فرق یہ ہے کہ ’’لاصق‘‘ کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے، جس کا بعض بعض سے ملا ہوا ہو اور لازق اس چیز کو کہتے ہیں، جو دوسری سے چپکی ہوئی ہو۔[3] مقصد یہ ہے کہ ان کے بنانے میں اللہ تعالیٰ کو کوئی بڑا ساز و سامان نہیں کرنا پڑا، ہم نے انھیں چپکنے والی مٹی سے بنا دیا، جس خالق نے انسان کو اس مٹی سے بنایا ہے۔ اس کے پاس نہ مٹی کی کمی ہے نہ ہی اس کی قدرتِ تخلیق میں کوئی کمی آئی ہے، |