Maktaba Wahhabi

71 - 438
بن گئے تو انسان کی ان کے مقابلے میں کیا مجال ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس میں پہلی اقوام وامم بھی شامل ہیں جو مشرکین مکہ سے قوت وسطوت میں کہیں بڑھی ہوئی تھیں۔ (قرطبی) قومِ عاد تو کہتی تھی: ﴿ مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ﴾ [حم السجدہ: ۱۵] ’’ہم سے قوت میں کون زیادہ سخت ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ هِيَ أَشَدُّ قُوَّةً مِنْ قَرْيَتِكَ الَّتِي أَخْرَجَتْكَ أَهْلَكْنَاهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ ﴾ [محمد: ۱۳] ’’اور کتنی ہی بستیاں ہیں جو تیری اس بستی سے قوت میں زیادہ تھیں جس نے تجھے نکالا، ہم نے انھیں ہلاک کردیا، پھر کوئی ان کا مددگار نہ تھا۔‘‘ بلکہ بعض مفسرین نے تو کہا ہے کہ یہ آیت ابوالاشد بن کلدہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے (جو بڑا سخت جان اور طاقت ور تھا)۔ [1] مگر کسی مستند روایت میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ پہلی امتیں بلاشبہہ شان وشوکت اور اپنی قوت وسطوت میں بہت زیادہ تھیں۔ مگر کوئی انسان ہو یا اممِ سابقہ ان کی اور مخاطبین کی پیدایش میں کوئی فرق نہیں۔ قرآن کا اسلوب بتاتا ہے کہ یہاں آسمان و زمین، پہاڑ، سمندروں، سورج، چاند، ستاروں اور ملائکہ و جنات مراد ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا پیدا کرنا مخاطبین کے پیدا کرنے سے زیادہ مشکل ہے اور وہ قوت ووجود کے اعتبار سے بھی ان سے زیادہ بڑے ہیں۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ ان بڑی بڑی مخلوقات کو پیدا کرنے پر قادر ہے تو انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے مشکل کیونکر ہے؟ یہی استدلال ایک مقام پر یوں بیان ہوا ہے:
Flag Counter