3 کاہن سے اس لیے پوچھے کہ اس کے بارے میں آگاہی حاصل ہو کہ وہ کیا اور کیسا ہے۔ اس کی بات کو صحیح سمجھ کر اس پر عمل کرنے یا یقین کرنے کے لیے نہیں۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد سے فرمایا تھا: تم کیا دیکھتے ہو؟ اس نے کہا: میرے پاس سچی اور جھوٹی دونوں قسم کی خبریں آتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر سب کچھ خلط ملط ہوا (جیسے کاہن ہوتے ہیں ایک سچ سو جھوٹ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تیرے لیے (اپنے دل میں) بات چھپائی ہے (بتلا وہ کیا ہے)؟ ابن صیاد نے کہا: دخ، یعنی وہ پورا لفظ نہ بول سکا، آپ نے فرمایا: دور ہو تو اپنی حیثیت سے تجاوز نہیں کرے گا۔[1] یعنی اللہ تعالیٰ نے تیرے بارے میں اور دوسرے کاہنوں کے بارے میں جو مقدر کیا ہے تو اس سے تجاوز نہیں کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال اس کی حیثیت معلوم کرنے کے لیے اور صحابہ کرام کے سامنے اس کی نوعیت واضح کرنے کے لیے کیا تھا۔ ۴۔ کاہن سے امتحان کے لیے سوال کیا جائے تاکہ اس کی بے بسی اور جھوٹ اجاگر ہو۔ اس قسم کا سوال کرنا واجب ہے، تاکہ اس کے دعویٰ کا ابطال ہوسکے۔[2] حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بسند جید روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو شگون، فال لے یا اس کے واسطے شگون، فال لی جائے، یا خود کہانت کرے یا اس کے لیے کہانت کی جائے، یا خود جادو کرے یا اس کے واسطے جادو کیا جائے، اور جو کاہن کے پاس آکر اس کی بات کی تصدیق کرے اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ دین کے ساتھ کفر کیا۔[3] |